+92-300-4080095
+92-344-4080095 Call & WhatsApp:
Skype ID:     mhafizusman01

Hajj

(فلسفہ حج ( حج کی روح )

 
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے صا حب اسطاعت عاقل بالغ اور تند رست مسلمان مردو عورت پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض قراردیا ہے۔ حج کے ایام میں امیر و غریب ، شاہ وگدا تمام زبانوں اور رنگ و نسل کے لوگ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں در حقیقت حج اور حج کے دوران تما م صعوبتوں اور ناگوارخاطر تکالیف کو نہایت خوشی کے ساتھ برداشت کرنا ہی حج کی اصل روح ہے حضور ﷺنے فرمایا :حج کے راستہ میں تکالیف اٹھانے کا ثواب جہاد میں تکلیفیں اٹھانے کے برابر ہے حج پر روانگی سے پہلے آقا کریم ﷺکی طلبی پر غلام اس کے آستا نے پر حاضری کا قصد کرتا ہے دورکعت نماز توبہ کی نیت سے پڑھے اس کے بعد درود شریف پڑھے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرے زبا ن سے استغفارکرے ۔

 

(سفر حج کی تیاری ) 


اپنی نیت کا بڑی احتیا ط سے جائز ہ لیجےئے خا لصتا اللہ تعالیٰ کی خو شنو دی قبولیت عمرہ وحج کی شرط اول* چھوٹے بڑے گنا ہوں سے سچے دل سے توبہ کیجیے *حقوق العبا د کی ادا ئیگی کا اہتمام کیجیے*اپنے آپ کو پہلے ہی سے مشقت کا عادی بنا لیجیے حضور ﷺکا فرمان ہے کہ :حاجی کو ا سکی مشقت کے مطابق ثواب ملتا ہے *حج پر روانہ ہونے سے پہلے اپنا طبی معائنہ کر والیا جائے کو ئی ایسی بیماری نہ ہو کہ اسکے علاج میں دیر ہو جائے * گھر سے روانگی سے پہلے سامان کی پڑتال کرلیں انٹرنیشنل پاسپورٹ پر ویزہ لگا ہو اجہاز کا ٹکٹ ،دو طرفہ سیٹ کنفر م شدہ،گردن تو ڑ اور فلو کا انجکشن کا کارڈ ،شناختی کا رڈ نادرا،ا شناختی لاکٹ، مردوں کیلیے احرام کے دو سیٹ یعنی چار ان سلی چادریں ،احرام کی بیلٹ ،چپل جس سے پاؤں کے اوپر کی ہڈی ننگی رہے (خواتین کوئی بھی جوتا پہن سکتی ہیں ۔چار جوڑے کپڑے بنیان ،جوتا خواتین کیلیے بالوں پر باندھنے کیلیے سکارف ، تولیہ ، مگ، سیفٹی پن ، ٹوپی کنگھا ، جائے نماز ، اور دوسری ضرورت کی چیزیں وغیرہ اور کتاب سفر سعادت یا کوئی دوسری مستند کتاب حج کے موضوع پر۔ سفر سے ایک دو دن پہلے حجامت وغیرہ بنوالیں ناخن کٹوالیں مونچھیں تر شوالیں غیر ضروری بال صاف کرلیں ۔


(دیگر ضروری ہدایات ) 


* ہوائی جہاز میں سگریٹ نوشی اور فضول گفتگو نہ کریں کثرت سے تلبیہ پکاریں دوران سفر دی گئی ہدایات پر سختی سے عمل کریں *تمام عاز مین حج کے پاسپورٹوں کا کمپیوٹر میں اندراج ہو گا فنگر پرنٹ اور فوٹو اتاری جائے گی *جس بلڈ نگ میں آ پ کو جو بھی کمرہ دیا جائے وہ بخوشی لیں بوڑھے اور بیمار افراد کے لیے ایثار سے کام لیں
*مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے باہر بیت الخلاء اور وضو خانوں کا انتظام موجود ہے ان میں گند گی نہ پھلائیں * منٰی روانگی :ر وانگی سے تین چار دن قبل اپنے مکتب سے رابطہ کریں معلم آ پ کو منٰی عرفات کے خیموں کا کاڑد اور ٹرین کا کارڈ آپ کو دے گا منٰی سے عرفات مز دلفہ اور واپس منٰی میں آنے کے لیے ٹرین کے سفر کا شیڈول مکتب دے گا * منیٰ میں لے جانے کا ضروری سامان: ڈسپوزیبل یا پلاسٹک کا گلا س، پلیٹ، چمچ، تولیہ، مسواک ،یا ٹوتھ برش، خشک اشیاء، حج کی کتاب، بستر، کیلیے پلاسٹک کی چٹائی ،وغیرہ *مسجد الحرام یا مسجد نبوی جاتے وقت زیادہ رقم نہ رکھیں طواف کرتے یا شطان کو کنکر یاں مارتے وقت اگر کوئی چیز گر جائے تو اٹھانے کی کو شش نہ کریں ورنہ نا گہا نی حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں بہبو دکے انتظامات وزارت مذہبی امورہم آہنگی حکومت پاکستان سعودی عرب میں عا ز مین حج کیلیے مختلف مراکزقائم کرتی ہے مکہ مکرمہ میں جہاں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں مرکز ی دفتر قائم کیا جاتاہے مدینہ منورہ میں دو پاکستان ہاؤس ہیں جن میں بہبودکے دفا تردن رات کام کرتے ہیں ۔


(حج )


حج کی تعریف :حج کا لغوی معنی ہے کسی عظیم الشان چیز کی طرف قصد و ارادہ کرنا جبکہ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص زمانے میں مخصوص افعال فرض، واجبات، طواف، سعی، وقوف عرفات اور دیگر مخصوص مقامات کی زیارت کرنے کو حج کہا جاتا ہے۔ حج کی فرضیت :حج تند رست صاحب استطاعت، بالغ ،عاقل، بقائم 
ہو ش وحواس مسلمان مردو عورت پر اس کی زندگی میں ایک مرتبہ کرنا فرض ہے ۔صاحب استطاعت سے مرادایسے مسلمان مردو خواتین جن پر زکوۃ فرض ہو ان کی مالی حیثیت اتنی مضبوط ہو کہ وہ آسانی سے سفر حج اور اس کے لوازمات یعنی مناسک حج کو ان کی شرائط کے ساتھ پورا کر سکتے ہو ں۔ حج کا حکم: ان میں سے پانچواں ستون حج کو قراردیا ہے ۔احادیث کے مطابق تمام انبیاء کرام نے حج کیا ہے ۔حضور ﷺنے فرمایا :جو شخص استطا عت رکھتا ہو اور پھر حج نہ کرے تو چا ہے یہودی ہو کر مرے یاعیسائی ہو کر مرے ۔ 
حج کی شرعی حیثیت :زندگی بھر میں صاحب استطاعت پر ایک مرتبہ بیت اللہ شریف کا حج کرنا فرض ہے اور فرض عین ہے حج کا وقت : حج کا وقت مقررہ مہینے اور ایام ہیں ۔


( احرام )


احرام کا لغوی معنی ہے حرام کرنا یعنی جس وقت کو ئی شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر تلبیہ پڑھ لیتا ہے تو چند مباح چیز یں بھی حرام ہو جاتی ہیں جیسے احرام، حج اور عمرہ کے درست ہونے کیلئے شرط ہے جیسے نماز کے درست ہو نے کیلئے تکبیر تحریمہ شرط ہے۔ جو چیز یں احرام سے پہلے حلال و مباح تھیں نیت اور تلبیہ کے ساتھ احرام باندھ لینے سے ان چیزوں کو اپنے اوپر لازمی طورپر حرام قراردے لے۔ جب کوئی شخص مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ راستہ میں جو بھی میقات پڑے اس پر یا اس سے پہلے حج یا عمرہ کا احرا م با ند ھے حج کے تو خاص دن مقرر ہیں البتہ عمرہ سا ل بھر میں جب چاہے کر سکتا ہے لیکن حج کے پا نچ دنو ں یعنی 12,11,10,9,اور 13ذولحجہ کو عمرہ کرنا مکروہ ہے ۔


(احرام کے مسائل )


مسئلہ : اگر کسی نے احرام باند ھتے وقت غسل نہ کیا اور وضو کر کے احرام باند ھ لیا اور دو رکعت نفل پڑھ لیے تو یہ بھی جا ئز ہے۔ مسئلہ: اگر کسی نے موقع ہو تے ہو ئے بھی سستی سے کام لیا اور غسل وضو اور احرام باند ھ کر نماز کے بغیرہی حج یا عمرہ کی نیت کر کے تلبیہ پڑھ لیا تب بھی احرام میں داخل ہو جائے گا البتہ ایسا کرنا مکر وہ ہے۔
مسئلہ: اگر حالت احرام میں کسی جگہ زخم ہو جائے تو اس سے بھی احرام میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ کوئی چیز واجب ہوتی ہے۔ مسئلہ ا:حرام میں آ ئینہ دیکھنا، دانت نکلو انا، درست ہے او ر مسواک بد ستور سنت ہے۔ مسئلہ: احرام کا کپڑا سفید ہو نا افضل ہے۔ لیکن اگر رنگین تہبنہ باند ھ لیا یا رنگین چادر اوڑھ لی تویہ بھی جائز ہے۔ مسئلہ: احرام میں گھڑی باندھنا ،چشمہ لگانا، جائز ہے مسئلہ: احرام والے کو سر اور منہ پر پٹی باند ھنا منع ہے،اگر چوتھائی سر یا چوتھائی چہرہ پر ایک دن یا ایک رات یا اس سے زیادہ پٹی باند ھی تو د م واجب ہو گا اور اگر چوتھائی سے کم ڈھا نپا یا ایک دن یا ایک رات سے کم ڈھانپاتو صدقہ واجب ہو گا ۔مسئلہ: احرام میں مرد کو بند جوتا ،بوٹ ، انڈوئیر
موزے پہننا، ممنوع ہے، مردا حرا م میں ایسا جوتا پہنے جوپا ؤ ں کے اوپر ابھر ی ہو ئی درمیا نی ہڈی کو ننگا رکھے۔ مسئلہ: احرام میں ہر گنا ہ سے سختی کے سا تھ پر ہیز کرے
یو ں تو گنا ہ سے ہمیشہ ہی بچنا لازم ہے لیکن احرا م میں اسکا اور زیادہ اہتما م کرے۔ مسئلہ : احرام میں ایسی باتیں کرنا بھی ممنوع ہے جو میاں بیوی کے درمیا ن ازدواجی تعلقات سے متعلق ہوں ۔مسئلہ : احرام میں لڑائی جھگڑے سے بھی بہت پرہیز کرے۔ نوٹ: *طواف زیارت کا وقت 10ذی الحجہ کی فجر سے 12ذی الحجہ کی غروب آفتاب یعنی مغرب سے پہلے تک ہے۔* طواف زیارت سے رات کے کسی بھی حصے میں فارغ ہوں تو بقیہ رات قیام کے لئے منٰی چلے جائیں مکہ مکرمہ میں ٹھہر نا یا رات گزارنا مکروہ ہے ۔ 
فرائض حج: حج میں 3فرض ہیں۔ احرام باندھنا : یعنی دل سے حج کی نیت کرے تلبیہ یعنی ،،( لبیک اللھْم لبیک) آخر تک پکارنا وقو ف عرفات :9ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک عرفات میں ٹھہرنا اگر چہ تھوڑی سی دیر کے لئے ہو۔ طواف زیارت : جو کہ 10ذی الحجہ طلوع آفتاب سے 12ذی الحجہ کے غروب سے پہلے ادا کیا جاتا ہے۔ واجبا ت حج : حج کے واجبا ت چھ ہیں (1) مز دلفہ میں وقوف صبح فجر کی نما ز سے لے کر طلوع آفتاب تک ٹھہر نا 
(2) رمی جمار یعنی تینوں شیطانوں :پر کنکریاں مارنا (3) قربا نی کرنا (4) حلق یا قصر کرانا۔ نوٹ : رمی ، قربانی اور حلق کو بالتر تیب کرنا بھی واجب ہے (5) صفا ومروہ کی سعی کرنا ( طواف زیارت کے بعد ) (6) واپس اپنے ملک جانے سے پہلے آفاقی یعنی میقا ت سے باہر رہنے والے کا طواف وداع کرنا اگر ان میں کوئی واجب چھوٹ جائے گا تو حج ہو جائے گا مگر قصد ا چھوڑا ہو یا بھول کر لیکن اس کا کفا رہ لازم ہوگا ۔سنن حج : مفر دآفاقی اور قارن کو طواف قدوم کرنا (۲) طواف قدوم میں رمل اور اضطباع کرنا ( اگر اس کے بعد سعی کرنا ہو اگر طواف قدوم کے بعد سعی نہ کی تو طواف زیارت کے بعد سعی کرنی ہو گی اور اس وقت طوا ف زیارت میں رمل کرنا ہوگا ) 
اگر چہ شلوار قمیض ہی پہنی ہو (۳) 8ذی الحجہ کی صبح کو منٰی کے لئے روانہ ہو نا اور وہا ں پانچ نماز یں پڑھنا (۴) طلوع آفتاب کے بعد 9ذی الحجہ کو منٰی سے عرفات کیلئے روانہ ہو نا (۵) عرفات سے غروب آفتاب کے بعد امام حج سے پہلے روانہ نہ ہونا (۶)عرفات میں غسل کرنا (۷) عرفات سے واپس ہو کررات کو مزدلفہ میں ٹھہرنا (۸)
ایا م منٰی میں رات کو منٰی میں رہنا ۔


(حج کی ادائیگی کا طریقہ )


8 ذی الحجہ سے 12ذی الحجہ تک کے دنوں کو ایام حج کہا جاتاہے۔ حج کا پہلا دن : 7ذی الحجہ مغرب کے بعد 8ذی الحجہ کی رات شروع ہو جائے گی رات ہی کو منٰی کے لئے سب روانگی کی تیاری کر لیں غسل کریں غسل کرنے کے بعد احرام کی چادریں باندھیں اور دو رکعت نفل ادا کریں نفل کی ادا ئیگی کے بعد حج تمتع کی نیت کر یں۔


(حج کی نیت )


(ترجمہ ): اے میرے اللہ! میں حج کی نیت کرتا ہوں پس اس کو میر ے لئے آسان کردے اور مجھ سے قبول فرمالے۔ اس کے بعد کچھ بلند آواز سے تین مرتبہ تلبیہ پڑھیں جو کہ فرض ہے آہستہ آواز سے درود شریف پڑھیں اب آ پ پر احرام کی پابند یاں لازم ہو گئیں ۔


(حج کا پہلا دن ( 8ذی الحجہ ) )


منٰی کی طرف روانگی : عام طور پر 8ذی الحجہ کی صبح فجر کی نماز سے فارغ ہو کر منٰی کے لئے روانگی شروع ہوتی ہے۔ جبکہ بعض مکتب والے سات ذی الحجہ کی رات کو ہی حجاج کرام کو منٰی لے جاتے ہیں۔ اس سفر میں تلبیہ کثرت سے پکاریں اس وقت اللہ تعالیٰ کو آپ کے یہ کلمات بہت پسند ہیں ۔جتنی کثرت سے عاز مین حج اس کو
پکار یں گے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا قرب حضورﷺ کے طفیل آپ کے ساتھ ساتھ ہو گا اس کے ساتھ استغفار پٖڑھتے رہیں ۔اور درود شریف کی کثرت رکھیں ظہر سے پہلے آپ انشاء اللہ منٰی پہنچ جائیں گے یہاں آج کے دن ظہر ،عصر ، مغرب ، عشاء اور 9ذی الحجہ کی فجر کی نماز منٰی میں اد اکرنا شامل ہے رسول اللہﷺ نے بھی پانچ نماز یں منٰی میں ادا فرمائی تھیں منٰی کو روانگی 8ذی الحجہ کو فجر سے پہلے رات میں بھی کسی وقت ہو سکتی ہے۔ آج کا سارا دن اور ساری رات منٰی ہی میں بسر ہو گی ۔


(حج کا دو سرادن ( 9ْی الحجہ ))


فجر کی نما ز منٰی میں اداکرنے کے بعد جب سورج نکل آئے تو عرفات جانا ہے۔ آج حج کا سب سے بڑا رکن وقوف عرفہ ادا کرنا ہے جسکے بغیر حج نہیں ہو تا۔ سورج طلو ع ہونے کے بعد جب کچھ دھوپ پھیل جائے تو منٰی سے عرفات کیلئے روانہ ہو جائے جو منٰی سے تقر یبا 9کلو میڑ ہے اس دوران دعا ئیں پڑھی جائیں حاجیوں کے قافلے فجر کی نما زکے بعد عرفات پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں جس قدر ہو سکے تلبیہ درود شریف اور کلمہ چہار م جو حضور ﷺ نے اس جگہ پڑھا اور پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے خوب پڑھیں اور میدا ن عرفات میں پہنچ کر جبل رحمت پر نظر پڑتی ہے۔ یہی وہ پہاڑ ہے جس پر نبی اکرم ﷺ نے آخری حج کے موقع پر خطاب فرمایا تھا۔ 9ذی الحجہ کو زوال کے بعد سے10ذی الحجہ کی صبح صادق تک کے درمیانی حصہ میں احرام حج کی حالت میں کسی قدر بھی اگر عرفات میں ٹھہر جائے یا وہاں سے گزر جائے تو حج ہوجائے گا اگر اس وقت میں ذرادیر کو بھی عرفات میں نہ پہنچا تو حج نہ ہو گا او رزوال کے بعد سے غروب تک عرفات میں ٹھہر نا واجب ہے۔ جو شخص اس وقت میں نہ پہنچ سکے وہ آنے والی رات میں کسی وقت بھی پہنچ جائے تو اس کا حج ہو جائے گا۔ سنت طریقہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی امیر حج کی اقتداء میں پڑھی جا ئے یعنی عصر کو بھی ظہر ہی کے وقت میں پڑھ لے۔ وہا ں مسجد نمر ہ میں امام صاحب دونوں نماز یں اکٹھی پڑھاتے ہیں لیکن چونکہ ہر شخص وہاں پہنچ نہیں سکتا او ر سب حاجی اس میں سما بھی نہیں سکتے اور بغیر امیر حج کی اقتداء کے دو نو ں نماز وں کو جمع کرنا درست بھی نہیں ہے۔ جب سورج غروب ہو جائے تو بغیر نما ز مغرب پڑھے عرفات سے مزدلفہ روانہ ہو جائیں عرفات اور منٰی کے درمیان منٰی سے مشرق کی سمت حد ود حرم میں داخل ہو کر تقر یبا 4.5کلو میڑکا میدان ہے جسے مزدلفہ کہتے ہیں ۔اسی میدان کی آخری حد پر ایک پہاڑ ہے جسے مشعر الحرام کہتے ہیں۔ عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے راستہ میں مغرب کی نماز نہ پڑھیں یادر کھیں مغرب اور عشاء کے وقت کا انتظارکرنا چا ہیے جب عشاء کا وقت ہو جا ئے تو مغرب او ر عشاء دونو ں نماز یں ایک ہی وقت میں اس طرح پڑھیں کہ پہلے مغرب کے فرض او ر عشاء کے فرض ادا کرنے کے بعد مغرب کی سنتیں اور نوافل اور پھر عشا ء کی سنتیں وتر اور نوافل اد ا کریں یعنی دونوں نماز وں کے فرضوں کے درمیان کوئی سنت یا نفل نہ پڑھیں ۔ مزدلفہ میں آمد : یہ رات آپ کو مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے بسر کرنی ہے۔
نماز کی ادا ئیگی سے فراغت کے بعد کچھ دیر آرام کرسکتے ہیں پھر اٹھ کرتا زہ دم ہوکر عبادت میں مشغول ہو جائیں۔ آج کی رات دل سے نکلی ہو ئی کو ئی دعا انشاء اللہ رد نہیں ہوتی بلکہ ہر دعا قبول ہوتی ہے امت مسلمہ کیلئے دعائیں مانگیں اور جمرات کی دمی کیلئے ستر کنکر یاں تھیلی میں ڈال لیں کنکر ی کھجور کی گٹھلی یا مٹر کے دانے کے برابر ہو ۔


(حج کا تیسرادن ( 10ذی الحجہ ) )


حج کا پہلا واجب و قوف مزدلفہ : آج ذلحجہ کی 10تاریخ ہے اس میں حج کے چند احکا م ادا کریں گے ۔پہلا حکم وقوف مزدلفہ ہے جو واجب ہے اس کا وقت
طلو ع فجر سے لے کر سورج نکلنے تک ہے اگر کو ئی شخص طلو ع فجر کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر منٰی چلا جائے سورج نکلنے کا انتظار نہ کرے تو بھی واجب وقوف ادا ہو گیا سنت یہی ہے کہ سور ج نکلنے سے کچھ پہلے تک ٹھہر ے مزدلفہ کے تمام میدان میں جہاں چاہیں وقوف کر سکتے ہیں افضل یہ ہے کہ جبل قزح کے قریب وقوف کیا جائے اگر وہاں بھیڑ ہو تو مزدلفہ میں جس جگہ ٹھہر ا ہے وہیں صبح کی نماز اندھیر ئے میں پڑھ کر وقوف کر لے اس وقوف میں بھی تلبیہ تکبیر ، تہلیل استغفار توبہ اور دعا کثر ت سے کی جائے وقوف مزدلفہ واجب ہے اس لئے اس کو چھو ڑنے پر دم لازم آتا ہے مزدلفہ سے منٰی : سورج نکلنے سے تھوڑی دیر پہلے مزدلفہ سے منٰی کے لئے روانہ ہو جانا چا ہیے۔ اس کے بعد دیر کرنا خلا ف سنت ہے۔ دوسرا جب بڑے جمرہ کی رمی : آج صرف بڑے جمرہ کو سات کنکر یاں مارنی ہیں مزدلفہ سے جب چل کرمنٰی پہنچیں تو پہلے اوردوسرے جمرہ کو چھوڑکر سیدھا جمرہ عقبہ پر جائیں ۔تلبیہ پکارنا بند کریں ۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھ کر سات کنکر یا ں ماریں۔ ( ترجمہ ): میں اللہ کا نام لے کر
کنکر یا ں مار تا ہوں شیطان کو ذلیل کرنے اور رحمٰن کو راضی کر نے کیلئے رمی کرتے ہو ئے ہر کنکر ی مارتے وقت تکببر پڑھیں۔ (بسم اللہ اللہ اکبر) جمرہ عقبہ کی رمی کا مسنون وقت سورج نکلنے سے لے کر زوال تک ہے اور زوال سے سورج ڈوبنے تک وقت جو ازہے ۔یعنی اس میں نہ استحبا ب ہے اور نہ کر اہت اور غروب آفتاب کے بعد وقت مکروہ ہو جاتا ہے۔ مگر کمزور معذور بیمار اور عورتوں کے لئے آفتاب کے بعد بھی مکر وہ نہیں ہے۔ مسئلہ : جو لوگ خودرمی کر سکتے ہیں ان کی طرف سے دوسرے لوگ رمی نہیں کر سکتے جو لوگ رمی کر سکتے ہیں اور وہ خود نہیں کرتے تو انہیں رمی چھوڑنے کا گنا ہ ہو گا اور دم واجب ہو جائے گا۔ مسئلہ: جولوگ دوسروں کو نائب بنا تے ہیں کہ وہ ان کی جگہ رمی کریں ان کے لئے بہتر ہے کہ غروب آفتاب کے بعد وہ رمی خود کر لیں۔ مسئلہ : اگر کسی نے صبح صادق تک رمی نہیں کی تو قضاء ہو گئی گیا ر ہو یں تاریخ کو اس کی بھی قضاء کرے اور دم دے ۔
قربانی: جمرہ عقبہ ( بڑ ے شطان) کی رمی سے فارغ ہو کر بطور شکرانہ حج کی قربانی کر یں یہ حضرت اسماعیل ؑ کی یاد والی قربانی نہیں ہے ۔اس قربانی کو دم شکر، دم تمتع، یادم قران کہا جاتا ہے اس قربانی کے کرنے والے کی نیت یہ ہونا چاہیے کہ وہ حج کا واجب ذبیحہ ادا کررہاہے ۔جب تک قربانی نہ ہو جائے تب تک سر کے بال نہ منڈ وائیں مسئلہ: بکری ،دنبہ ، یا بھیڑ جس کی عمر کم از کم ایک سال ہو ذبح کرے یا پانچ سالہ اونٹ یا دو سالہ گائے میں ساتواں حصہ لے لیں۔ مسئلہ: اگر متمتع اور قارن کے پاس قربانی کی گنجائش نہ ہو تو اس کے بدلے دس روزے رکھ لے لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ تین روزے دس ذی الحجہ سے پہلے رکھ لئے ہو ں اور حا لت احرام میں رکھے ہو ں اور حج کے مہینوں یعنی شوال ذی قعدہ ذی الحجہ میں رکھے ہو ں اور سات روزے ایام تشریق گزرجانے کے بعد رکھے خواہ مکہ مکرمہ میں ہو خواہ کسی اور جگہ لیکن گھر آکر رکھنا افضل ہے اگر کسی نے 10ذی الحجہ سے پہلے تین روزے نہ رکھے تو اسے قربانی ہی کرنا پڑے گی۔ مسئلہ : قربانی دسویں گیارہویں بار ہویں ذی الحجہ میں سے کسی تاریخ میں کرنا لازمی ہے جب تک قربانی نہ کرے اس وقت تک اس کو سر منڈوانا یا بال کٹانا جائز نہیں ہے سر منڈ وانا : قربانی سے فارغ ہونے کے بعد حاجی سر کے بال منڈوائیں یا کٹوا ئیں لیکن منڈوانا بہتر ہے رسول اکرم ﷺ نے حلق کر وانے والوں کیلئے تین مرتبہ اور قصر کروانے والوں کیلئے ایک مرتبہ بخشش کی دعا فرمائی 
طواف زیا رت : طواف زیارت اپنے روز مرہ لباس میں کیا جاتا ہے احرام کی حالت میں نہیں۔ طواف زیارت کا افضل وقت دسویں ذی الحجہ ہے اگر بارہ ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کرلیا جائے تو جائز ہے اور اگر بارہو یں تاریخ گزر گئی او ر طوا ف زیارت نہیں کیا تو تا خیر کی وجہ سے دم دینا واجب ہو گا اور طواف بھی فرض رہے گا۔ یہ طواف کسی حال میں ساقط نہیں ہو تا اورنہ ہی اس کا کوئی بدل دے کر ادا ہوسکتا ہے۔ حج کے تیسرے فرض کی ادائیگی کے بعد آپ کے لئے جو کچھ
احرا م سے پہلے حلال تھا وہ سب حلال ہو گیا۔ صفا ومروہ کے درمیان سعی : وقوف عرفات سے پہلے یعنی مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے صرف عمرہ کی سعی کی تھی حج کی سعی نہیں کی تھی اس کیلئے طواف زیارت کے بعد احرام کے اپنے روزمرہ کے کپڑوں میں کریں گے اس سعی کے بعد بال نہیں کٹوائے جاتے اب آپ فارغ ہو کر پھر منٰی چلے جائیں طواف زیارت کے بعد دو رات اور دن منٰی میں قیام کرنا ہے ۔


(حج کا چوتھا دن ( 11ذی الحجہ ) )


اگر آپ کسی وجہ سے (10)ذی الحجہ کو قربانی یا طواف زیارت نہیں کر سکے آج کر لیں گیا رہ بارہ تیر ہ ذی الحجہ کو ایام رمی کہا جاتا ہے۔ آج رمی کا وقت زوال آفتا ب سے شروع ہو کر غروب آفتا ب کے بعد مکروہ ہے۔ جمرہ اولیٰ ( چھوٹا شیطان ) سب سے پہلے آئے گا اس پر پرسات کنکر یاں ماریں اور ہر کنکری پر ( بسم اللہ اللہ اکبر ) پڑھیے رمی کے بعد دائیں جانب ہٹ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعا کریں تو بہ استغفار اور تسبیح وذکر کے بعد درود شریف پڑ ھیں اپنے لئے اپنے گھر بار اور دوست احبا ب کے لئے دعا کریں اسکے بعد تھو ڑا آگے چل کر جمرہ وسطیٰ ( درمیانہ شیطان )پر آئیں اور اسی طرح اسکو سات کنکر یاں ماریں پھر کنکریاں مار کر دائیں جانب ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دعا مانگیں۔ پھر اسکے بعد جمرہ عقبہ ( بڑا شیطان ) پر اسی طرح سات کنکر یاں اسکو بھی ماریں جسطرح پہلے ماری تھیں مگر اس جمرہ پر ٹھہر نے یا دعا مانگنے کا ثبوت نہیں بلکہ اس کے بعد سید ھے اپنی قیام گاہ پر چلے جائیں رسو ل اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔ 


(حج کا پانچواں دن ( 12ذی الحجہ ))


آج کا مخصوص کا م تینو ں جمرات کی زوال کے بعد رمی کرنا ہے۔ رمی کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے ۔اس سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں زوال کے بعد غروب
آفتا ب تک مسنون ہے بوڑھوں ،بیماروں اور عورتوں کو رات کے وقت ہی رمی کرنا چاہیے تاکہ مردوں کے ہجوم سے بچ سکیں ۔الحمداللہ آپ کا حج مکمل ہو گیا ۔لٰہذا حد ودمنٰی سے نکل کر مکہ مکرمکہ واپس آجائیں۔ 


(حج کا چھٹادن ( 12ذی الحجہ ، ا ختیا ری ) )


اگر آپ 13ذی الحجہ کی صبح صادق تک منٰی کی حد ود میں ہی تھے تواب مکہ مکرمہ میں نہ جائیں بلکہ 13 ذ ی الحجہ کو بعد اززوال کنکر یاں تینوں جمرات کو مار کر پھر مکہ مکرمہ جائیں زوال سے پہلے بھی کنکر یاں سکتے ہیں۔ اگررمی کے بغیر چلے گئے تو دم دینا پڑے گا اب حج کے تمام ارکان اداہو چکے ہیں۔ طواف وداع : میقا ت سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ طواف زیارت کے بعد رخصتی کا طواف بھی کریں اس کو طواف وداع اور طواف مدر بھی کہتے ہیں اور یہ حج کا آخری واجب ہے۔ اس میں حج کی تینوں قسمیں برابر ہیں یعنی ہر قسم کا حج کرنے والے پر واجب ہے ۔طواف وداع میں طوا ف کے بعد دورکعت نماز واجب الطواف پڑھیں دو رکعت نماز کے بعد حرم پاک میں رکھے ہوئے کولروں سے خوب سیر ہو کرآپ زم زم پےءں اور نہایت عاجزی سے دعا ئیں مانگیں۔ 


(زیارات مکہ مکرمہ )


جبل النور یا غارحرا: جبل النور کا پرانا نام جبل حراہے ۔یہ مشہور پہاڑ مکہ مکرمہ شہر سے تقریبا پانچ کلو میڑ دورواقع ہے۔ اسی پہاڑکی ایک چوٹی کے قریب شہر ہ آفاق غار غارحرا ہے ۔جس میں حضور ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔ جبل الثور /غار ثور : جبل ثور مکہ مکرمہ سے تقریبا 6کلو میٹر دو رواقع ہے۔ اسی سنگلا خ پہاڑ کی مشہور غار ثور میں آنحضور ﷺ ہجرت کے دوران حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ متواتر تین رات تک اس میں رہے اسی لئے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو یار غار کے لقب سے بھی نوزاگیا ۔جنت المعلٰی : مکہ مکرمہ کا عظیم قبر ستان جو المعلٰی کے نام سے مشہو ر ہے اس میں تاریخ اسلام کی متعددنا مورہستیاں مدفون ہیں ۔

(زیارات مدینہ منورہ )


مسجد قبا : مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر جو آبادی ہے اسے قبا کہا جاتا ہے ۔آپﷺنے مسجد قبا کی بنیاد رکھی تھی اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے یہی مسجد تعمیر ہوئی تھی۔ حدیث کے مطابق گھر سے وضو کر کے مسجد قبا میں دونفل نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔ ہر روزصبح کی نماز پڑھ کر مسجد قبا میں چلے جائیں۔ وہا ں اشراق کی نماز کے ساتھ دورکعت نفل اداکر یں ۔عمرے کا ثواب مل جاتاہے ( محراب پر حدیث لکھی ہو ئی ہے ) مسجد قبلتین : یہ مسجد نبوی ﷺ سے تقریبا تین میل کے فاصلے پر ہے یہ مسجد تاریخ اسلام کے ایک اہم واقعہ کی نشانی ہے ابتدائے اسلام میں مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے تقریبا 16,17 ماہ تک ا دھر ہی رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے حالت نماز ہی میں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے کعبہ شریف کی طرف پھر جانے کا حکم دیا چنانچہ نبی اکرم ﷺکی اقتدا میں مسلمان بیت المقدس سے کعبہ شریف کی طر ف مڑگئے اس لئے اس مسجد کو مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجداس لئے کہا جاتا ہے کہ پہلے مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا بعد میں قبلہ اللہ تعا لیٰ کے حکم سے قبلہ تبدیل کر دیا گیا تھا۔


( زیا رت کو احد و شہدائے احد )


مدنیہ منورہ سے شمال کی جانب تین میل کے فاصلے پر ایک پہاڑواقع ہے جسے احد کہا جا تاہے۔ اس کے بارے میں نبی پاک ﷺنے فرمایا احد ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم احد سے محبت رکھتے ہیں ۔نبی اکر مﷺکے چچا حضرت حمزہؓ اور دیگر شہدائے احد کے مزارات یہاں ایک احاطہ میں ہیں جنگ احد اسی جگہ ہو ئی تھی۔ تمام شہدا اسی جگہ دفن ہیں ان پر سلام پیش کریں ۔ اسی پہاڑ کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے محبوب ﷺ اگر آپ چا ہیں تو یہ پہاڑ میں سونے کا بنادیتا ہوں تو حضور ﷺ نے فرمایا یااللہ : مجھے قبول ہے مگر جنت میں ۔ اسی مقام پر غزوہ احد پیش آیا جس میں آپﷺنے مسلمانوں کو فرمایا کہ ابھی اسی پہاڑ پر کھڑے ہو کر دفاع کرو لیکن مسلمانوں نے سمجھ اکہ کافر اب مال غنیمت چھوڑکر بھاگ چکے ہیں اب ہم مال غنیمت اکھٹاکرتے ہیں اسی اثنا میں پہاڑکے پیچھے سے دشمنوں نے مسلمانوں پردوبارہ حملہ کر دیا اس واقعہ میں آپﷺ کے عظیم صحابہؓ بھی شہید ہوئے ۔
 

 

The fifth and last Pillar of Islam is the Hajj. It is explicitly stated in the Holy Qur'an that every physically and financially able Muslim should make the Hajj to the Holy City of Makkah once in his or her lifetime.

The Hajj is considered the culmination of each Muslim's religious duties and aspiration. Muslims from all over the world seek to make the Hajj to the Holy City of Makkah, which occurs between the eighth and thirteenth days of the last month of the Islamic calendar - Dhu'l-Hijjah - of each year. Muslims travel thousands of miles to reach the Holy City of Makkah for the Hajj and perform the rituals in the same manner as the Prophet Muhammad (peace be upon him) almost fourteen centuries ago.

According to the Department of General Statistics at the Planning Ministry, the number of pilgrims for 2004 (1424 AH) amounted to 2,164,469. There were 1,534,759 pilgrims from outside the Kingdom, while 629,710 were from inside the Kingdom.

Back to top

office activator